گرچکا در فاطمہؑ پر
اب ہےزخمی محمدؐ کی بیٹی
ہائےاک دن سرجھکائے
اپنےحجرےمیں بیٹھی ہوئی تھی
پھر حُسینؑ آکے اماں سے کہنے لگے
آنکھ میں کیوں ہیں آنسو بتاؤ مجھے
فاطمہؑ نے کہا میرے نورِ نظر
آج اماں کی یاد آرہی ہے مجھے
سنکے ماں کی صدا دل تڑپنے لگا
روکے شبیرؑ نے فاطمہؑ سے کہا
کیوں چھوڑ جاتی ہے ماں
اُنگلی پکڑ کے چلایا
سینے سے تم نے لگایا
ان تین سالوں میں اماں
تم نے بہت کچھ سکھایا
ماں سے بچھڑکے جیتے ہیں کیسے کیا یہ سکھاتی ہے ماں
کیوں چھوڑ جاتی ہے ماں
دروازہ جب سے گرا ہے
پہلو شکستہ ہوا ہے
ٹوٹیں ہوئی پسلیاں ہیں
شبیرؑ سب جانتا ہے
تکلیف میں ہوں بچوں کو اپنے کب یہ بتاتی ہے ماں
کیوں چھوڑ جاتی ہے ماں
اِس فکر میں جاگ جانا
پیاسہ نہ ہو میرا بیٹا
احساس ہے مجھکو اماں
کیا پیار ہوتا ہے ماں کا
راتوں کو اُٹھ کر بیٹے کو اپنے پانی پلاتی ہے ماں
قصہ مجھے ایک ماں کا
بھیا حسنؑ نے سنایا
بیٹا وہیں سامنے تھا
جب ماں نے کھایا طمانچہ
اب اپنے گھر میں بیٹوں سے اپنا چہرا چھپاتی ہے ماں
کیوں چھوڑ جاتی ہے ماں
جب سے لگا تازیانہ
مشکل تھا مجھکو سلانا
جب ہاتھ دیکھا تمہارا
تب جاکے میں نے یہ جانا
ہوں ہاتھ زخمی پھر بھی تھپک کر لوری سناتی ہے ماں
شبیرؑ نے پھر صدا دی
کیا چھوڑ جاؤگی تم بھی
کیوں ایسا کہتی ہو اماں
رہتی نہیں ماں کسی کی
اچھا بتاؤ کیا دور جاکے پھر لوٹ آتی ہے ماں
کیوں چھوڑ جاتی ہے ماں
ماں نے کہا پھر یہ شبیرؑ سے
ہر ماں تو آتی نہیں لوٹ کے
اے میرے دل میرے نورِ نظر
زہراؑ کا اب تم سے وعدہ ہے یہ
جب تم بلاؤگے آئیگی ماں
سینے سے تمکو لگائیگی ماں
اک روز ایسا بھی آیا
تھا فاطمہؑ کا جنازہ
رُخ سے کفن جب ہٹایا
شبیرؑ نے ماں سے پوچھا
زیرِ کفن بھی آواز سنکر آنسو بہاتی ہے ماں
کیوں چھوڑ جاتی ہے ماں
بن ماں کے بچوں سے آکے
جب حال پوچھا علیؑ نے
ہائے رضا اور ذیشاں
شبیرؑ رو روکے بولے
اے باباگھرمیں لگتانہیں دل جب یاد آتی ہے ماں
Comments
Post a Comment