آنسو
معجزہ یہ بہی زمانے کو دیکھائے آنسو جو زباں کہہ نہ سکے وہ بہی بتائے آنسو
قرض ہے اجر رسالت جو چکائے آنسو ہم نے شبیر کو چاہا ہے تو پائے آنسو
جب غم شہہ کے سمندر میں نہائے آنسو پاک رومال میں زهرا کے تب آئے آنسو
آنکھ سے نکلے تو رومال میں آئے آنسو مڑ کے دیکها تو وہ موتی تهے بجائے آنسو
اے حسین اتنا تو ساون بھی نہیں برسا هے
جتنے دنیا نے تر ے غم میں بہائے آنسو
وہ تو رومال نے زهرا کے سنبهالا انکو ورنہ اتنے تهے کہیں بهی نہ سمائے آنسو
ہر جگہ اٹھنے لگی فصل عزاداری کی
پیاس نے خشک زمینوں میں اگائے آ نسو
صبر نے ظلم کے دربار میں اعلان کے ساتھ شہر خوشیوں کا اجاڑا تو بسائے آنسو
یہ تو پوچهو کسی مظلوم سے یا ظالم سے کہیں مرہم تو کهیں آگ لگائے آنسو
جب بهی آقاؤں کے روضوں پہ گئے انکے غلام پہول ہاتهوں نے تو آنکهوں نے چڑہائے آنسو
نعمتیں سامنے رکهیں تهیں زمانےکی مگر اس خزانے سے فقط ہم نے اٹہائے آنسو
در پہ جنت کے جو پہونچے تو کسی نے یہ کہا بس وہی آئے یہاں ساتھ جو لائے آنسو
اے خدا بخش دے انکو غم سرور کے طفیل جن کے دامن میں نہیں کچھ بهی سوائے آنسو
نام شبیر کا ہونٹوں سے میرے سن کے نظیر دل نے جب خوں ابالا تو بنائے آنسو
میر نظیر باقری
Comments
Post a Comment