نعت رسول ص
جو انتخاب تھا ماضی میں باقی اب نہ رہا
کہ مصطفی کے سوا کوئ منتخب نہ رہا
سحر مچلنے لگی کوئ خوف شب نہ رہا
وہ آگئے ہیں کہ فرق عجم عرب نہ رہا
قدم کو چومنے آئے ہیں سینکڑوں القاب
کہ اس گھرانے میں کوئ بھی بے لقب نہ رہا
ہے کافروں کا بھی کہنا امین و صادق ہیں
شرافتوں کا زمانہ بتاو کب نہ رہا
غرور عرش الہی کو بار بار سلام'
مگر زمین کا بھی اب فخر بے سبب نہ رہا
زمانہ جیت لیا سادگی سے لہجے کی
نشان نخوت بو جہل و بو لہب نہ رہا
خدا پرست چلو ہر بشر ہوا نہ ہوا
مگر بتوں کی وہ تعظیم وہ ادب نہ رہا
مری نگاہ در مصطفی پہ ہے کہ جہاں
بشر تو کیا ہے فرشتہ بھی بے طلب نہ رہا
تھیں مشکلیں بھی مگر راہ تھی مدینے کی
مسافروں کو کوئ رنج کچھ تعب نہ رہا
ہر ایک جان پہ اولی وہ بالتصرف ہیں
تو اختیار خدائ میں میں انکو کب نہ رہا
خدا کا شکر مودت ہے ان کے گھر سے مجھے
چلو یہ بار ندامت بھی پیش رب نہ رہا
نسیم فخر کر ان سے لہو کا رشتہ ہے
سوائے انکے کوئ نام اور نسب نہ رہا
Comments
Post a Comment