زینب نے
بنا کر باپ کے لہجے کو اک تلوار زینب نے
کئے ظالم کی گردن پر بہتر وار زینب نے
جومانگی بھیک بیعت نےتوفوراً اسکی جھولیمیں
اٹھا کر رکھ دیا شبیر کا انکار زینب نے
تڑپتے تھے سبھی کرسی نشین اور خون اگلتے تھے
کئےجب تیرلفظوں کے جگر کے پار زینب نے
یہ اب لیتا رہیگا انتقام اک ایک ظالم سے
ہر اک آنسو کا قطرہ کر دیا مختار زینب نے
حسینیت کو بخشی ھے شفا عابد کے صدقے میں
یزیرییت کو لیکن کر دیا بیمار زینب نے
بچھا کر فرش غم شبیر کا قاتل کے آ نگن میں
لکھی نوحوں سےاپنے ہرخوشی کی ہار زینب نے
نہ اب جاہ حشم باقی نہ اب نام و نشاں باقی
گرادی قصر ظالم کی ہر اک دیوار زینب نے
رکھا سیینے پہ اسکے جب سے اپنے صبر کا پتھر
ستم کو سانس لینا کردیا دشوار زینبِ نے
نظیر اہل جفا کو حشر تک رسوائ کی خاطر
بنایا شام کے دربار کو بازار زینب نے
میر نظیر باقری
Comments
Post a Comment