●●LYRICS ● ●
ہائے ہائے شام۔۔۔شام
ہائے ہائے شام۔۔۔شام
نوکِ نیزا سے دیکھ لو بابا
اب وہ سجاد نا رہا سجادؑ
جس گھڑی بے ردا ہوئی زینب
کربلا میں ہی مر گیا سجادؑ
کیا ہے پردہ یہ شام والوں کو میری دادی نے ہی سکھایا ہے
اُن ہی لوگوں نے میری پھوپھیوں کو بے ردا شام میں پھرایا ہے
کیا غضب ہے کہ ہاتھ پھیلا کر مانگتا ہے بس اِک رِدا سجادؑ
ہائے جس نے بغیرمحمل کے گھر سے باہر قدم نا رکھا تھا
اُس پھوپھی کو زمانے والوں نے آپ کے بعد بے ردا دیکھا
کاش! عباسؑ آج ہوتے تو یہ قیامت نا دیکھتا سجادؑ
سر پہ جب تک تھا آپ کاسایہ ماؤں بہنوں کے سر پہ تھی چادر
ورنہ میں بھی علیؑ کا بیٹا ہوں جانتا ہوں میں جنگ کے جوہر
دیکھ کر بے ردا پھوپھی کا سر شرم کے مارے جُھک گیا سجادؑ
ننھے بچوں کے ہاتھوں میں پتھر دیکے مارا گیا سکینہ کو
پشتِ ناقہ سے بھی گرایا اور تازیانے لگے یتیماں کو
میں بندھے ہاتھ دیکھ کر رویا اُس نے ہر درد پر کہا سجادؑ
بدر و خیبرکی جو عداوت تھی اُسکا یوں انتقام لیتے ہیں
شام کے لوگ بھیڑ میں ہردم میری پھوپھیوں کا نام لیتے ہیں
تازیانے تو سہہ گیا بابا طنز لیکن نا سہہ سکا سجادؑ
اس طرح سے بندھے ہیں رسّی سے ہاتھ میرے گلے یتیموں کے
میں جھکوں تو زمین سے بابا پاؤں اُٹھتے ہیں ننھے بچوں کے
بس رکوع میں ہی شکر کے سجدے کر کے گزرے گا اب تیرا سجادؑ
جس بہن نے ہمیشہ جینے کی ہائے عباسؑ کو دعائیں دی
بےردا سر پہ رکھ کے ہاتھوں کو اُس نے عباسؑ کو صدائیں دی
سر سنا سے وہاں گرا اُن کا اور یہاں خاک پر گرا سجادؑ
اپنے مولاؑ کے ایک آنسو کا حق ادا نا سحابؔ کر پایا
گرتے اشکوں کی روشنائی سے دل کے قرطاس پر یہی لکھا
کتنا گہرا ہے غم رداوں کا یا خدا جانتا ہے یا سجادؑ
شاعر
جناب عارف سحابؔ (بلتستان)
Comments
Post a Comment