جس کا اعلاں نہیں ہوا کوئی یہ مدینے کا وہ جنازہ ہے
یہ ہے اکلوتی بیٹی احمد کی کلمہ گویوں نے جس کو مارا ہے
تھے فقط ساتھ لوگ ہیں ایسے جو بلائے گئے جنازے میں
ان سے ہٹ کر بھرے مدینے سے نہ بلایا نہ کوئی آیا ہے
بس یہ تفصیل ہے مصائب کی ہے یہی درد کا خلاصہ بھی
جس کہ آگے نہ سر اٹھانا تھا اُس پہ اُمت نے ہاتھ اٹھایا ہے
کیسی غربت ہے اس جنازے کی کاندھا دینے کو چار کاندھے نہیں
یہ جنازہ اٹھانے والوں میں ایک مستور ہے جو فضہ ہے
امن کا شہر تھا مدینہ مگر قبر زہرا وہاں نہیں محفوظ
تیغ اٹھا کر جہاں بقیعہ میں ایک مظلوم پہرا دیتا ہے
ہائے غربت کے بنت ِسرور ع کو تعزینے سے جس نے مارا تھا
اُسی قنفض لعیں کو حاکم نے خاص انعام سے نوازاہ ہے
بنت سرور کی یہ وصیت تھی وہ نہ آئیں مرے جنازے پر
مرے بابا کے بعد جس جس نے یا علی میرا دل دکھایا ہے
جرم کیا تھا بتول کا محسن صرف اتنا علی کی زوجہ تھی
قتل کر کے بتول لوگوں نے خم کا بدلہ تھا جو چکایا ہے
Comments
Post a Comment