........ پاگل کر دیا .........
ریت پرجب خون کی دهاروںکو سیقل کر دیا
پهرہر اک قطرے نے تلواروں کو محمل کر دیا
آنسوءں نےتپتے سحراوءں کو جل تهل کر دیا
یوں غم شبیر نے جنگل میں منگل کر دیا
حق و باطل میں قیا مت تک نہ هو گا اتحاد
کربلا کی جنگ نے یہ مسعلہ حل کر دیا
آب هر اک ظالم اسی میں دفن هوتا جائگا
صبر نے ریتیلے صحراوءں کو دلدل کر دیا
ایک هی آواذ میں شبیر کے انکار نے دست بیعت کو همیشہ کے لئے شل کر دیا
جانے کیا ہوتا اٹها لیتا اگر تلوار وہ جسکے اک خطبے نے درباروں کو مقتل کر دیا
فرش زنداں پر قیامت تک کے سجدوں کیلئے
سید سجاد نے پتهر کو مخمل کر دیا
گھر میں قاتل کے بچھا کر فرش غم شبیر کا
زینب دلگیر نے محلوں کو جنگل کر دیا
ہو رهی هیں روز آنکهوںکے فلک سے بارشیں
اس نے اپنی پیاس کو ساون کا بادل کر دیا
ساحلوں سے اپنا سر ابتک پٹکتی هے فرات
اس کو اک عباس کے چلو نے پاگل کر دیا
بڑه گئ بینائ میری شاہ پر رونے کے بعد
فاطمہ نے آنسوءں کو جیسے کاجل کر دیا
تیر کها کر مسکرا کر اصغر بیشیر نے
ظلم کو ظالم کے گهر میں هی مقفل کر دیا
کربلا میں یوں مٹا یا شاہ نے لفظ یزید
آنے والے کل کو بهی بیتا ہوا کل کر دیا
کربلا کے غم کا یہ احسان هے مجھ پر نظیر
میں بہت بے ربت تها مجہکو مسلسل کر دیا
میر نظیر باقری
Comments
Post a Comment