مرثیہ میر انیس ‏ ‏فخر ‏ملک ‏و ‏اشرف ‏آدم ‏ہیں ‏محمد - Meer Anees Marsiya




مرثیہ میر انیس ‏ ‏فخر ‏ملک ‏و ‏اشرف ‏آدم ‏ہیں ‏محمد


(1) 


فخر ملک و اشرف آدم ہے محمد

اکلیل سر عرش معظم ہے محمد

حقا کہ خدا وند دو عالم ہے محمد 

آخر ہے مگر سب سے مقدم ہے محمد 

ایسا کوئ محرم نہیں اسرار احد کا 

حال اس سے ہے پوشیدہ ازل کا نہ ابد کا

(2)

مختار زمیں باعث افلاک نبی ہے 

والا گہر قلزم لو لاک نبی ہے 

مصباح حریم حرم پاک نبی ہے 

شیرازۂ مجموعۂ ادراک نبی ہے 

عالم میں وہ آیا تھا پہ دل سوئے خدا تھا 

حق اس کا رضا جو وہ رضا جوئے خدا تھا 

(3)

 آدم ہے وجود شہ لولاک سے آدم 

عالم سب اسی شاہ کی ہستی سے ہے عالم 

سر رشتۂ مہر اس کا اگر ہوتا نہ محکم 

تو ہوتے نہ اضداد عناصر کبھی باہم 

کیا کیا کہوں کیا کیا ہے عنایات محمد

ہے باعث ایجاد جہاں ذات محمد

(4)

 وہ پیشتر و خیل رسولان سلف ہے

آدم کو اسی نور الہی سے شرف ہے 

یہ در یتیم اور وہ پاکیزہ صدف ہے 

کرتا ہے  پدر فخر زہے شان خلف ہے 

پیغمبر بر حق کی ہو کیا نعت کسی سے 

خالق کو مباہات ہے ایجاد نبی سے 

(5) 

جز ذات خدا سب پہ محمد کے  ہیں احساں

اس شاہ کے ہیں خوان کرم پر سبھی مہماں 

وہ اصل ہے اور فرع ہے سب عالم امکاں 

تھا خلق دو عالم سے وہی مقصد یزداں 

باطن میں بھی فیض اس کا ہے ظاہر بھی وہی ہے 

اول بھی سبھوں سے وہی آخر بھی وہی ہے 

(6) 

معراج سے جو اس کو ملا رتبۂ اعلا 

یہ رتبہ کسی اور پیمبر نے نہ پایا 

اللہ سے جو قرب محمد تھا کہوں کیا 

قوسین کا ہے فرق جہاں رتبۂ ادنی 

جبریل امیں کوبھی نہ واں دخل کی جاتھی 

یا احمد مختار تھے یا ذات خدا تھی 

(7)

اللہ نے دی تھی اسے کونین کی شاہی 

امی تھے پہ تھا دل میں بھرا راز الہی 

دی سنگ نے اس شہ کی رسالت پہ گواہی 

اشجار بھی اعجاز سے اس کے ہوئے راہی

دی مردوں کو جاں سبز کیا خشک شجر کو

دو کر دیا انگلی کے اشارے سے قمر کو 

(8)

بے سایہ جو مشہور وہ سلطان عرب ہے 

پیش عقلا وجہ یہ ہے اور یہ سبب ہے 

ہے کون عدیل اس کا کہ وہ سایۂ رب ہے 

دنیا میں کسی سائے کا سایہ کہو کب ہے 

ہے دوسری یہ وجہ کہ وہ جان جہاں تھا

بے سایہ ہے یہ جاں کی طرح سایہ کہاں تھا

(9)

پہلے کیا اللہ نے جس چیز کو پیدا 

لکھا ہے کہ وہ نور جناب نبوی تھا 

دس سو برس اس دن سے وہ نور شہ والا 

استادہ رہا رو بروئے خالق یکتا 

گہہ حمد و ثنا گہہ صفت قدرت حق تھی 

اس نور پہ ہردم نظر رحمت حق تھی 

(10)

اس نور سے فرماتا تھا یہ حضرت معبود 

ہے خلق سے تو میری مراد اور مرا مقصود 

عزت کی قسم اپنی جو تو ہوتا نہ موجود 

تو رہتی بنا عالم ایجاد کی نابود 

پیدا کبھی کرتا نہ زمیں کو نہ فلک کو 

دوزخ کو, نہ جنت کو, نہ آدم , ملک کو

(11)

جو تیرا محب ہے ہمیں اس سے ہے محبت 

جو تیرا عدو ہے ہمیں اس سے ہے عداوت 

دی ہم نے تجھے سارے رسولوں سے فضیلت 

ہر ایک کی امت سے ہے بہتر تری امت

نائب کسی مرسل کا نہیں تیرے وصی سا

بیٹی تجھے دی فاطمہ سی خویش علی سا 

(12)

سبطین وہ بخشے تجھے جو ہم کو ہیں پیارے 

ہم ان کے رضا جو وہ رضا جو ہیں ہمارے

ہیں عرش معلی کے وہ تا بندہ ستارے 

بخشائیں گے امت کے ترے جرم وہ سارے 

جو مرتبے تیرے ہیں وہ اوروں کے کہاں ہیں 

وہ ختم رسل ہیں وہ شفیع دو جہاں ہیں 

(13)

اک بار یہ سن کر سخن خالق اکرم 

سجدے کے لئے جھک گیا وہ نور مجسم 

بالا کیا سجدے سے سر پاک کو جس دم 

پیشانی سے تب نور کے قطرے گرے پیہم

اس نور کے قطروں سے پیمبر ہوئے پیدا

دریائے نبوت سے یہ گوہر ہوئے پیدا 

(14)

ان سب سے جناب احدی نے یہ ندا کی 

پہچانتے ہو منزلت و قدر کو میری 

پہلے سبھوں سے نور محمد نے صدا دی 

لاریب ہے تو خالق و معبود حقیقی 

سجدہ تجھے واجب ہے کہ تجھ سا نہیں کوئ 

تو رب ہے ہمارا ترا ہتما نہیں کوئ 

(15) 

تب کرسی و لوح و قلم و عرش معلا 

نجم و مہ و مہر و ملک و گنبد خضرا

شام و سحر و ظلمت و ضو جنت و دنیا

اللہ نے سب نور نبی سے کئے پیدا 

حق یہ ہے کہ باعث ہے وہ عالم کا نبا کا

کیا رتبہ ہے کیا فیض ہے محبوب خدا کا 

 (16)

اس نور کو دو حصے کیا حق نے برابر 

اور پھر کیے ہر حصے کے دو حصے مکرر 

دو ٹکڑوں سے مخلوق ہوئے احمد و حیدر 

پیدا ہوے دو حصوں سے سبطین پیمبر 

زہرا کو پھر اس نور سے تنہا کیا پیدا 

یوں پنجتن پاک کا نقشہ کیا پیدا 

(17)

انساں سے بھلا ہوسکے ایسوں کی ثنا کد 

اک نور محمد سے ہیں یہ تا بہ محمد 

واللہ علی سے ہیں علی تک سبھی امجد 

بعد ایک کے ایک ان میں سے ہے صاحب مسند 

سمجھے نہ کوئ یہ کہ محمد سے جدا ہیں 

اک سیب کے ٹکڑے میں یہ سب نور خدا ہیں 

(18)

آدم کو کیا فوج ملائک نے جو سجدا 

یہ نور محمد کا فقط پاس آدب تھا 

ہے یوسف یعقوب کے جو حسن کا شہرا

تھا واں بھی فقط نور محمد ہی کا جلوا 

اک صاعقہ گرتے ہوے جو دور سے دیکھا 

موسی نے اسی نور کو تھا طور سے دیکھا

(19)

یہ ظلم ہوا کون سے مرسل کے حرم پر 

گھر جل گیا چھینا گیا کس کا زرو زیور 

اور کس کی نواسی پھری بلوے میں کھلے سر 

تا شام گئی راہ میں بے مقنعہ و چادر 

اس پر بھی رہائی نہ ملی رنج و محن سے 

گردن کو جو کھولا تو بندھے ہاتھ رسن سے 

(20)

بیٹی کو کہو کونسے مرسل کی ستایا

کس کے شکم پاک پہ دروازہ گرایا

داماد کا حق کون سے مرسل کے مٹایا

گردن میں رسن باندھ کے کس کو ہے پھرایا 

مقتول کہو ! کس کا نواسا ہوا سم سے 

کس پیاسے کا کاٹا ہے گلا تیغ ستم سے 

(21)

اللہ نے رتبے تو محمد کو یہ بخشے 

ہیں سارے رسولوں سے زیادہ شرف ان کے 

ہر چند کہ سب مورد آفات و بلا تھے 

پر ایسے مصائب بھی کسی نے نہیں دیکھے 

کیا کیا نہ دیے رنج انھیں اہل جفا نے 

آرام نہ پایا کبھی محبوب خدا نے 

(22)

حق یہ ہے کہ ہوتی ہے جسے حق سے محبت 

سہتے ہیں وہ در دو الم و رنج و مصیبت 

نیکوں کے لئے خلق میں کیا کیا ہے اذیت 

منھ پر ہے کھلا ان کے در محنت و حسرت 

خاعان خدا ممتحن جور و جفا ہیں 

ارباب ولا جو ہیں وہ پا بند بلا ہیں 

(23)

پہلے تو مصیبت یہ ہے شاہ دو سرا کی

تھے بطن میں مادر کے کہ والد نے قضا کی 

جس دم چھ برس کے ہوئے قدرت سے خدا کی 

مادر نے بھی لی راہ , گلستان بقا کی 

دو صدمے ہوئے در یتیمی کے جگر پر 

دادا کے سوا کوئ نہ باقی رہا سر پر 

(24)

بن باپ کے فرزند کا تھا پالنا مشکل 

دادا رہا ہر امر میں پوتے کا مکفل 

جب آٹھ برس کا ہوا وہ سرور عادل 

دادا کو بھی در پیش ہوئ گور کی منزل 

پھر راحت و آرام کی صورت کہو کیا تھی

تنہائ کی آفت تھی یتیمی کی بلا تھی 

(25)

جز ذات خدا کوئ نہ تھا یارو مدد گار 

مادر نہ تھی جو چھاتی سے لپٹا کے کرے پیار 

بابا کا تو دیکھا بھی نہ تھا آپ نے دیدار 

رو دیتے تھے دادا کے لئے دن میں کئ بار 

بیکس پہ عجب حادثہ طفلی میں پڑا تھا

آنسو بھی کوئ پونچھنے والا نہ رہا تھا

(26)

کرتا تھا فرشتوں کو ندا خالق اکبر 

محبوب مرا گرچہ ہے بے والد و مادر

ہر آن حفاظت کے لئے میں تو ہوں سر پر 

بھیجو صلوات اور سلام اس پر مکرر 

حاجت ہے محمد کو نہ مادر نہ پدر کی

ہوتی ہے یتیمی سے فزوں قدر گہر کی 

(27)

خالق کو یہ توقیر تھی جس شاہ کی منظور 

چالیس برس ان کو ستاتے رہے مقہور 

جب حق نے کیا دعوت اسلام پہ مامور

بس دشمن جاں ہوگئے سب کافر و مغرور 

راحت نہ ملی باد شہ جن و بشر کو

ہر اک نے کیا قتل محمد پہ کمر کو 

(28)

کفار قریش آپ کے تھے درپئے ایزا 

دو بار بہم ہوکے سبھوں نے کیا نرغا 

گردن میں ردا ڈال کے اس زور سے کھینچا 

جو صدمے سے دم گھٹ گیا محبوب خدا کا 

یاں تک تو عداوت تھی ابوجہل لعیں کو 

مجروح کیا سنگ سے حضرت کی جبیں کو 

(29)

جس وقت ہوا کفر و ضلالت سے جہاں پاک 

اور دور ہوا گلشن دیں سے خس و خشاک 

رونے کی ہے جا سینے میں ہوتا ہے جگر چاک

 بیمار مدینے میں ہوئے سید لولاک 

اک بار خزاں آگئ ہستی کے چمن میں 

طاقت نہ رہی بیٹھنے اٹھنے کی بدن میں 

(30)

افسوس مرے بعد ستم ہوئے گا ان پر 

ہیہات مصیبت میں پڑیں گے  مرے اصغر 

مظلوم پہ کچھ رحم نہ کھائیں گے ستم گر 

آرام جہاں میں نہ ملے گا انھیں دم بھر

ناچار انھیں چھوڑتا ہوں امت بد میں 

ان کے لئے تڑپے گی مری روح لحد میں 

(31)

یہ کہتے تھے اور تھی مرض الموت کی شدت 

تھی بستر آزار سے اٹھنے کی نہ طاقت 

فرمایا ہوئ گھر میں جو اصحاب کی کثرت 

نزدیک ہے اب دار فنا سے مری رحلت 

اندیشے کی جاگہ ہے یہ عبرت کا محل ہے 

جو زندہ ہے اک دن اسے درپیش اجل ہے 

(32)

تم پاس ہو میں چھوڑتا دو امر عظیم اب 

قرآن ہے اور عترت اطہار مرے سب 

ناجی ہے وہ ان دونوں سے رکھے گا جو مطلب 

جو ہوگا خلاف ان سے نہ بخشے گا اسے رب 

ان میں سے ہر اک مصحف ایماں کا درق ہے 

تابع رہو ان کے یہ رضا مندئ حق ہے 

(33)

واللہ اگر ان کی رضا مندی ہے درکار 

تم ان سے خصومت نہ کبھی کیجو خبردار 

آزار مجھے دوگے جو دوگے انھیں آزار

دونوں یہ جدا مجھ سے نہیں ہوویں گے زنہار 

میں ساتھ تمھارے ہوں جو ساتھ انکے رہوگے 

مجھ سے اسی تقریب سے کوثر پہ ملوگے 

(34)

پھر یوں کہا حیدر کی طرف کر کے اشارا

عاشق ہوں میں اس کا کہ خدا کا ہے یہ پیارا 

واللہ مرے بعد یہ رہبر ہے تمھارا 

رنج اس کو کوئ دے یہ نہیں مجھ کو گوارا 

سمجھے نہ وصی جو اسے باعث ہے وہ شر کا 

مختار ہے یہ احمد مختار کے گھر کا 

(35)

بھائ بھی یہ میرا ہے وصی بھی ہے یہ میرا 

اک نور سے میں اور یہ ہوا خلق میں پیدا 

جو دین ہے مجھ پر یہ ادا اس کو کرے گا 

جو وعدے ہیں میرے یہ کرے گا انھیں ایفا 

یہ واقف گنجینۂ اسرار نہاں ہے 

یہ حجت حق ہے یہ امام دو جہاں ہے 

(36)

جو دوست ہے اس کا وہ مرا دوست ہے و اللہ  

دشمن ہے جو اس کا مرا دشمن ہے وہ گمراہ 

رتبے سے علی کے میں تمھیں کرتا ہوں آگاہ 

جو اس سے بغی ہووے گا کافر ہے وہ بد خواہ 

جس کو یقیں اس کی امامت کا نہیں ہے 

قائل وہ محمد کی رسالت کا نہیں ہے 

(37)

جو حکم علی کا ہے وہی حکم خدا ہے 

نہی اس کی جو ہے نہی رسول دوسرا ہے

جو کام یہ کرتا ہے مناسب ہے بجا ہے 

ناحق کوئ حق اس کا جو چھینے تو خطا ہے 

میں دشمن حیدر پہ رعایت نہ کروں گا 

محشر میں کبھی اس کی شفاعت نہ کروں گا 

(38)

و اللہ  ستانا مری بیٹی کا زبوں ہے 

وہ مریم و حوا سے بھی رتبے میں فزوں ہے 

تسلیم کو اس کی فلک پیر نگوں ہے 

وہ پارۂ تن ہے مرا اور یہ مرا خوں ہے 

جو بعد میرے نیک سلوک اس سے کرے گا

میں قبر میں آؤں گا وہ جس روز مرے گا 

(39)

بیٹے ہیں جو اس کے وہ مرے لخت جگر ہیں 

دونوں فلک عز و شرافت کے قمر ہیں 

بحرین ہیں زہرا و علی اور وہ گہر ہیں 

اللہ  کے پیارے ہیں محمد کے پسر ہیں 

نا خوش کیا خالق کو اگر ان پہ جفا کی 

کیجو نہ خیانت یہ امانت ہیں خدا کی 

(40)

حال ان کا نظر آیا جو سلطان امم کو 

فرمایا کہ لے آؤ دوات اور قلم کو

تحریر تمھارے لئے کچھ کرنا ہے ہم کو

تا راہ ضلالت سے رکھو باز قدم کو 

و اللہ عمل گر مرے لکھنے پہ کروگے 

پھر حشر تلک تم کبھی گمراہ نہ ہوگے

(41)

اک شخص چلا لینے دوات اور قلم جب 

کہنے لگا از راہ عداوت یہ کوئ تب 

پھر آ ہمیں تحریر نبی سے نہیں مطلب

قرآن ہی کافی ہے ہمارے لئے از بس 

کہتا ہو جو ہزیاں اسے کب ہوش و خرد ہے 

اس وقت کی تقریر نہ تحریر سند ہے 

(42)

تکرار سے ان سب کی جو اک غل ہوا برپا 

اس صدمے سے محبوب الہی کو غش آیا 

کیا ظلم ہے کیا قہر ہے وا حسرت و دردا 

تحریر وصیت کے بھی مانع ہوئے اعدا 

کہنا ہزیان کا کلمہ حق میں نبی کے 

محبوب خدا سے یہ سخن بے ادبی کے 

(43)

اے مومنو انصاف کی جا ہے وہ پیمبر 

جس کے لئے قرآں میں کہے خالق اکبر 

جو کچھ ہے کلام اس کا نہیں وحی سے باہر

ہزیان کہے اس شخص کے حق میں وہ ستمگر 

کونین میں لعن اس پہ کیوں حشر تلک ہو 

کافر ہے وہ خود کفر میں اس کے جسے شک ہو

(44)

آکر یہ صدا دی ملک الموت نے اس دم 

دو اذن مجھے آنے کا اے سید اکرم 

جبریل نے کی عرض یہ با دیدۂ پرنم 

یہ قابض ارواح ہے اے قبلۂ عالم 

اس نے کبھی رخصت نہیں مانگی ہے کسی سے 

ہے اذن طلب حکم جناب احدی سے

(45)

بعد آپ کے یہ آج سے لے تابہ قیامت 

آنے کی کسی شخص سے مانگے گا نہ رخصت 

یا اس کو بلا لوں میں جو دیں آپ اجازت 

جبریل سے کہنے لگے اس وقت یہ حضرت 

آنے دو اسے صابر و شاکر ہے محمد

خالق نے بلایا ہے تو حاضر ہے محمد

(46)

جب یہ ملک الموت سے فرما چکے حضرت 

زہرا کو بلا چھاتی لگا یا بصد الفت 

رو کر کہا اے فاطمہ ہم ہوتے ہیں رخصت 

سر پیٹ کے رونے لگی خاتون قیامت 

زہرا کو کبھی دیکھتے تھے گاہ  علی کو

تر ریش تھی اشکوں سے یہ رقت تھی نبی کو 

(47)

پھر ہاتھ میں حیدر کے دیا فاطمہ کا ہاتھ 

فرمایا امانت ہے خدا کی یہ خوش اوقات 

تازیست پہ ماتم میں مرے روئے گی دن رات 

زہرا سے کوئ دل شکنی کی نہ کرے بات 

مہمان ہے یہ اس پر الم و غم ہے جہاں میں 

و اللہ حیات اس کی بہت کم ہے جہاں میں 

(48)

سن کر یہ سخن شور ہوا رونے کا برپا 

بستر پہ ہوئے راست شہ یثرب و بطحا 

نزدیک محمد ملک الموت بھی آیا 

فرمان خدا فوج ملائک کو یہ پہونچا 

نزدیک سواری ہے رسول عربی کی 

صف باندھ کے تعظیم کرو روح نبی کی 

(49)

وہ آتا ہے جو عاشق صادق ہے ہمارا 

وہ آتا ہے جس کے لئے عالم کو سنوارا 

وہ آتا ہے جو عرش معلی کا ہے تارا 

وہ آتا ہے جو سب سے بہت ہم کو ہے پیارا 

ہنگام تلطف ہے مدارات کا دن ہے 

معشوق سے عاشق کی ملاقات کا دن ہے 

(50)

سکان سموات کو واں پہونچا یہ احکام

بیت الشرف فاطمہ میں پڑگیا کہرام 

کانپ اٹھی زمیں ہل گئے مسجد کے در و بام

فریاد گئ عرش تلک شیر خدا کی 

اور قابض ارواح نے یاں اپنا کیا کام 

مونین میں غل تھا کے محمد نے قضا کی 

(51)

جبریل امیں کو نہ رہا ضبط کا یارا 

سر پر سے پٹک تاج تقرب یہ پکارا

دنیا میں اب آنا ہوا موقوف ہمارا

محبوب خدا گلشن ہستی سے سدھارا

رونق نہیں بے صاحب معراج جہاں کی

فریاد ہے اٹھی برکت آج جہاں کی 

(52)

چلاتی تھی یوں بنت نبی کوٹ کے سینا 

میں لٹ گئ ہے ہے ہوا ویران مدینا

آرام کا میرے نہ رہا کوئ قرینا 

طوفاں میں پڑا آل محمد کا سفینا 

بیتاب میں ہوتی تھی جو ہوتے تھے سفر میں

اب حشر تک آئیں گے نہ بابا مرے گھر میں 

(53)

 میں چھوٹی تھی جب سر سے اٹھیں مادر غم خوار 

مادر سے زیادہ مجھے بابا نے کیا پیار 

میں سوتی تھی اور آپ رہا کرتے تھے بیدار 

فرماتے تھے آپ آکے نہ رو اے مری دلدار 

منھ پر ہے عبا بیٹی سے روپوش ہیں بابا

میں رورو کے چلاتی ہوں خاموش ہوں بابا 

(54)

ہے ہے مرے بچے ہوے اب بے کس و مظلوم 

نانا کسے اب کہہ کے پکاریں گے یہ معصوم 

تا حشر رہے دولت دیدار سے محروم 

غمگین تو تھے اور بھی یہ ہوئیں گے مغموم 

ان دونوں کی مظلومی و تنہائ کا غم ہے

مادر بھی تو مہماں ہے فقط باپ کا غم ہے 

(56)

رو رو کے بیاں کرتے تھے یہ حیدر کرار

مجبور مجھے کر گئے یا احمد مختار 

مرنے سے ہوا آپ کے  بے کس و ناچار 

جز ذات خدا کون ہے اب میرا مدد گار 

صابر رہا ایذا سہی گو فاقہ کشی کی 

و اللہ کمر ٹوٹ گئ آج علی کی

(57)

حیدر یہ بیاں کرتے تھے با نالہ و افغاں

اور شبر و شبیر کا تھا حال پریشاں 

سر ننگے تھے اور چاک تھے کرتوں کے گریباں

تھے نانا کی میت کے قریں خاک پہ غلطاں 

منھ پر سے عبا کو کبھی سرکاتے تھے دونوں 

روکر کبھی چھاتی سے لپٹ جاتے تھے دونوں 

(58)

نانا کے کبھی چہرے سے چہروں کو ملاتے 

ہاتھوں کو اٹھا کر کبھی آنکھوں سے لگاتے 

خوا بیدہ سمجھ کر کبھی بازو کو ہلاتے 

کرتے کبھی فریاد کبھی اشک بہاتے 

کہتے تھے کبھی آنکھیں نہیں کھولتے نانا 

آزردہ ہیں ایسے کہ نہیں بولتے نانا 

(59)

سر پیٹ کے کہتی تھی یہ زہرا نہ جگاؤ

اب ہاتھ سے تم نانا کے بازو نہ ہلاؤ

بس دیکھ چکے آؤ ردا منھ پہ اوڑھاؤ

زاری  کرو فریاد کرو خاک اڑاؤ

جیتے ہو تو دنیا میں تمھیں کیا نہ ملے گا

نانا سا مگر چاہنے والا نہ ملے گا

(60)

یا غسل و کفن میں متوجہ ہوئے حیدر

اصحاب نبی جمع ہوئے ڈیوڑھی پہ آکر

تھے سب تو شریک کفن و دفن پیمبر 

محروم سعادت سے رہے چند بد اختر 

پرسا بھی دیا آکے نہ زہرا و علی کو

بے چین کیا روح رسول عربی کو

(61)

بے اذن جہاں تھی نہ فرشتے کی رسائ

اس گھر کی یہ عزت کہ اسے آگ لگائ 

تھی حمل سے محسن کے محمد کی وہ جائ

پہلو پہ  گرا در تو یہ فریاد مچائ

ہے ہے مجھے غم اور دیا باپ کے غم نے

بے جان ہوا محسن معصوم شکم میں

(62)

ہیہات نہ اس ظلم پہ بھی ہاتھ اٹھایا

کوڑا بہ ستم بازوے زہرا پہ لگایا

مظلوم نے اک آہ کی ایسی کہ غش آیا

آرام لحد میں بھی محمد نے نہ پایا 

رسی تو ادھر بندھی تھی گردن میں علی کی

مرقد میں ادھر روح تڑپتی تھی نبی کی 

(63)

جو احمد و زہرا و علی کو ہوئ ایذا

جو ظلوم و ستم شبر و شبیر پہ گزرا

ہو ویں گے کبھی ظالم و مظلوم پہ یک جا

اب جائے خموشی ہے انیس آگے کہے کیا 

جب حشر کو یہ دفتر جاں سوز کھلے گا

اس ظلم کا بھی حال اسی روز کھلے گا


Comments